ایسو سی ایشن آف پاکستانی فزیشنز اینڈ سرجنز آف یو کے کی آن لائن تقریب،

انسانیت کی خدمت پر پاکستان ڈاکٹرز اور سرجنز خراج تحسین کے مستحق ہیں،چوہدری سرور

برلن (ُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 23 دسمبر2020ء،نمائندہ خصوصی،مطیع اللہ) برطانیہ کے سپیشلٹ ڈاکٹروں کی سب سے بڑی تنظیم ایسو سی ایشن آف پاکستانی فزیشنز اینڈ سرجنز آف یو کے ( APPS UK) نے تنظیم کے دائرہ کار کو بڑھاتے ہوئےاب یورپ میں بھی آغاز کر دیا ہے۔ یورپ کی تنظیم کا باقاعدہ افتتاح گورنر پنجاب چوہدری سرور نے ایک آن لائن زوم افتتاحی تقریب میں کیا۔

Dr. Abdur Rahman

تقریب میں یورپ کے مختلف ممالک کے پاکستانی سفیروں سمیت ڈاکٹرز اور سائنس دانوں نے شرکت کی جن میں مہمان خصوصی گورنر پنجاب چوہدری سرور ،APPS Europ تنظیم کے بانی و صدر ڈاکٹر عبدالرحمن شاہد،چئیرپرسن سائینٹسٹ طاہر محمود، APPS برطانیہ کے سی سی او ڈاکٹر عبدالحفیظ ،صدر شکیل پوری،برطانیہ سے پاکستانی ہائی کمشنرمعظم احمد خان،سویڈن سے پاکستانی سفیر ڈاکٹر ظہور احمد، ناروے سے پاکستانی سفیر ظہیر پرویز، اسپین سے پاکستانی سفیر خیام اکبر، جرمنی سے پاکستانی سفیر ڈاکٹر محمد فیصل، ڈنمارک سے پاکستانی سفیر احمد فاروق، رومانیہ سے پاکستانی سفیر ڈاکٹر ظفر اقبال، سمیت ڈاکٹر عفان قیصر، ڈاکٹرنازش عفان ،اور یورپ کے مختلف ممالک سے منتخب ہونے والے ڈاکٹرز اور سائینٹسٹ جن میں سویڈن سے ڈاکٹر محمد شاہد، اسپین سے ڈاکٹر عرفان راجہ، فرانس سے ڈاکٹر مبشر حسان ،آئرلینڈ سے ڈاکٹر شاہد سلیمی،عثمان سعید، ناروے سے ڈاکٹر عامر چوہدری، برطانیہ سے ڈاکٹر شائستہ معراج،ناہید خان، یونان سے ڈاکٹر تنویر سید، جرمنی سے ڈاکٹر عمر چوہدری، سوئٹزرلینڈ سے ڈاکٹر معظم علی، فرانس سے ڈاکٹر جبار ملک، ہالینڈ سے ڈاکٹر رانی، اٹلی سے ڈاکٹر محمد حسام، ڈنمارک سے ڈاکٹر میر صبوح، بلجیم سے ڈاکٹر منظور الہی، رومانیہ سے ڈاکٹر قاسم رزاق و دیگر نے شرکت کی اور اظہار خیال کیا۔

گورنر پنجاب چوہدری سرور نے اپنے خطاب میں APPS UK کو پاکستان میں انسانیت کی خدمت پر خراج تحسین پیش کیا اور برطانیہ کے بعد یورپ بھر کے ڈاکٹرز ،پیرا میڈکس، نرسز،پروفیشنلز،ریسرچرز، سائنس دانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے اور یورپ کی سب سے بڑی تنظیم بنانے پر مبارکباد پیش کی ، ویبینار سے APPS UK کے صدر شکیل پوری نے خطاب کیا اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کا پیغام پڑھ کر سنایا، APPS UK کے سی ای او ڈاکٹر عبدالحفیظ نے اپنے خطاب میں تنظیم کے پلیٹ فارم سے پاکستان میں کئے جانے والے کام پر تفصیلاً روشنی ڈالی اور شرکا کو تنظیم کے 16 سال کے سفر اور کارکردگی سے آگاہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت تنظیم کے 6 ہزار سے زائد ممبران ہیں جبکہ 35 ہزار کے قریب فالوورز ہیں، پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری تنظیم کے قابل ذکر کام ہیں۔ ویبینار سے APPS Europ کے صدر و بانی ڈاکٹر عبدالرحمٰن شاہدنے اپنے خطاب میں انسانیت اور مادر وطن پاکستان کی خدمت کے عزم کو دہرایا اور یورپ کی تنظیم کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ APPS Europ یورپ بھر میں پاکستانی ڈاکٹرز فزیشنز سرجنز اور پروفیشنکشز کی سب سے بڑی تنظیم ہو گی اس تنظیم کا مقصد پاکستانی اوریجن کے ڈاکٹرز اور پروفیشنلز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا اور پاکستان کی خدمت کرنا ہے۔ اور بہت جلد یورپ بھر میں تنظیم سازی مکمل کر لی جائے گی جس میں ڈاکٹرز سرجنز فزیشنز سائنس دان اور الائیڈ ایکسپرٹس شامل ہونگے۔

کی آن لائن تقریب، انسانیت کی خدمت پر ڈاکٹرز اور سرجنز خراج تحسین کے مستحق ہیںAPPS

چوہدری سرور

سٹاک ہوم(کاشف عزیز بھٹہ ) برطانیہ کے سپیشلٹ ڈاکٹروں کی سب سے بڑی تنظیم ایسو سی ایشن آف پاکستانی فزیشنز اینڈ سرجنز آف یو کے ( APPS UK) نے تنظیم کے دائرہ کار کو بڑھاتے ہوئےاب یورپ میں بھی آغاز کر دیا ہے۔یورپ کی تنظیم کا باقاعدہ افتتاح گورنر پنجاب چوہدری سرور نے ایک آن لائن زوم افتتاحی تقریب میں کیا۔ تقریب میں یورپ کے مختلف ممالک کے پاکستانی سفیروں سمیت ڈاکٹرز اور سائنس دانوں نے شرکت کی جن میں مہمان خصوصی گورنر پنجاب چوہدری سرور ،APPS Europ تنظیم کے بانی و صدر ڈاکٹر عبدالرحمن شاہد،چئیرپرسن سائینٹسٹ طاہر محمود، APPS برطانیہ کے سی سی او ڈاکٹر عبدالحفیظ ،صدر شکیل پوری،برطانیہ سے پاکستانی ہائی کمشنرمعظم احمد خان،سویڈن سے پاکستانی سفیر ڈاکٹر ظہور احمد، ناروے سے پاکستانی سفیر ظہیر پرویز، اسپین سے پاکستانی سفیر خیام اکبر، جرمنی سے پاکستانی سفیر ڈاکٹر محمد فیصل، ڈنمارک سے پاکستانی سفیر احمد فاروق، رومانیہ سے پاکستانی سفیر ڈاکٹر ظفر اقبال، سمیت ڈاکٹر عفان قیصر، ڈاکٹرنازش عفان ،اور یورپ کے مختلف ممالک سے منتخب ہونے والے ڈاکٹرز اور سائینٹسٹ جن میں سویڈن سے ڈاکٹر محمد شاہد، اسپین سے ڈاکٹر عرفان راجہ، فرانس سے ڈاکٹر مبشر حسان ،آئرلینڈ سے ڈاکٹر شاہد سلیمی،عثمان سعید، ناروے سے ڈاکٹر عامر چوہدری، برطانیہ سے ڈاکٹر شائستہ معراج،ناہید خان، یونان سے ڈاکٹر تنویر سید، جرمنی سے ڈاکٹر عمر چوہدری، سوئٹزرلینڈ سے ڈاکٹر معظم علی، فرانس سے ڈاکٹر جبار ملک، ہالینڈ سے ڈاکٹر رانی، اٹلی سے ڈاکٹر محمد حسام، ڈنمارک سے ڈاکٹر میر صبوح، بلجیم سے ڈاکٹر منظور الہی، رومانیہ سے ڈاکٹر قاسم رزاق و دیگر نے شرکت کی اور اظہار خیال کیا۔گورنر پنجاب چوہدری سرور نے اپنے خطاب میں APPS UK کو پاکستان میں انسانیت کی خدمت پر خراج تحسین پیش کیا اور برطانیہ کے بعد یورپ بھر کے ڈاکٹرز ،پیرا میڈکس، نرسز، پروفیشنلز،ریسرچرز، سائنس دانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے اور یورپ کی سب سے بڑی تنظیم بنانے پر مبارکباد پیش کی، ویبینار سے APPS UK کے صدر شکیل پوری نے خطاب کیا اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کا پیغام پڑھ کر سنایا، APPS UK کے سی ای او ڈاکٹر عبدالحفیظ نے اپنے خطاب میں تنظیم کے پلیٹ فارم سے پاکستان میں کئے جانے والے کام پر تفصیلا ًروشنی ڈالی اور شرکا کو تنظیم کے 16 سال کے سفر اور کاردگی سے آگاہ کیا۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت تنظیم کے 6 ہزار سے زائد ممبران ہیں جبکہ 35 ہزار کے قریب فالوورز ہیں، پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری تنظیم کے قابل ذکر کام ہیں۔ویبینار سے APPS Europ کے صدر و بانی ڈاکٹر عبدالرحمٰن شاہدنے اپنے خطاب میں انسانیت اور مادر وطن پاکستان کی خدمت کے عزم کو دہرایا اور یورپ کی تنظیم کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ APPS Europ یورپ بھر میں پاکستانی ڈاکٹرز فزیشنز سرجنز اور پروفیشنکشز کی سب سے بڑی تنظیم ہو گی اس تنظیم کا مقصد پاکستانی اوریجن کے ڈاکٹرز اور پروفیشنلز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا اور پاکستان کی خدمت کرنا ہے۔ اور بہت جلد یورپ بھر میں تنظیم سازی مکمل کر لی جائے گی جس میں ڈاکٹرز سرجنز فزیشنز سائنس دان اور الائیڈ ایکسپرٹس شامل ہونگے۔

یورپ میں پاکستانی ڈاکٹرزاورسائنسدانوں کی نمائندہ تنظیم کا افتتاح

برلن(مطیع اللہ) یورپ بھر سے پاکستانی نژاد ڈاکٹرز،سرجنز،سائنسدانوں اور پیرا میڈیکل پروفیشنلز کی سب سے بڑی تنظیم (اے پی پی ایس یورپ) کا افتتاح کر دیا گیا

تنظیم کا باقاعدہ افتتاح گورنر پنجاب چوہدری سرور نے ایک آن لائن زوم افتتاحی تقریب میں کیا۔ تقریب میں یورپ کے مختلف ممالک کے پاکستانی سفیروں سمیت ڈاکٹرز اور سائنس دانوں نے شرکت کی جن میں مہمان خصوصی گورنر پنجاب چوہدری سرور ،APPS Europ تنظیم کے بانی و صدر ڈاکٹر عبدالرحمن شاہد،چئیرپرسن سائینٹسٹ طاہر محمود، APPS برطانیہ کے سی سی او ڈاکٹر عبدالحفیظ ،صدر شکیل پوری،برطانیہ سے پاکستانی ہائی کمشنرمعظم احمد خان،سویڈن سے پاکستانی سفیر ڈاکٹر ظہور احمد، ناروے سے پاکستانی سفیر ظہیر پرویز، اسپین سے پاکستانی سفیر خیام اکبر، جرمنی سے پاکستانی سفیر ڈاکٹر محمد فیصل، ڈنمارک سے پاکستانی سفیر احمد فاروق، رومانیہ سے پاکستانی سفیر ڈاکٹر ظفر اقبال، سمیت ڈاکٹر عفان قیصر، ڈاکٹر نازش عفان ،اور یورپ کے مختلف ممالک سے منتخب ہونے والے ڈاکٹرز اور سائینٹسٹ جن میں سویڈن سے ڈاکٹر محمد شاہد، اسپین سے ڈاکٹر عرفان راجہ، فرانس سے ڈاکٹر مبشر حسان ،آئرلینڈ سے ڈاکٹر شاہد سلیمی،عثمان سعید، ناروے سے ڈاکٹر عامر چوہدری، برطانیہ سے ڈاکٹر شائستہ معراج،ناہید خان، یونان سے ڈاکٹر تنویر سید، جرمنی سے ڈاکٹر عمر چوہدری، سوئٹزرلینڈ سے ڈاکٹر معظم علی، فرانس سے ڈاکٹر جبار ملک، ہالینڈ سے ڈاکٹر رانی، اٹلی سے ڈاکٹر محمد حسام، ڈنمارک سے ڈاکٹر میر صبوح، بلجیم سے ڈاکٹر منظور الہی، رومانیہ سے ڈاکٹر قاسم رزاق و دیگر نے شرکت کی اور اظہار خیال کیا۔گورنر پنجاب چوہدری سرور نے اپنے خطاب میں APPS UK کو پاکستان میں انسانیت کی خدمت پر خراج تحسین پیش کیا اور برطانیہ کے بعد یورپ بھر کے ڈاکٹرز ،پیرا میڈکس، نرسز، پروفیشنلز،ریسرچرز، سائنس دانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے اور یورپ کی سب سے بڑی تنظیم بنانے پر مبارکباد پیش کی، ویبینار سے APPS UK کے صدر شکیل پوری نے خطاب کیا اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کا پیغام پڑھ کر سنایا، APPS UK کے سی ای او ڈاکٹر عبدالحفیظ نے اپنے خطاب میں تنظیم کے پلیٹ فارم سے پاکستان میں کئے جانے والے کام پر تفصیلا ًروشنی ڈالی اور شرکا کو تنظیم کے 16 سال کے سفر اور کاردگی سے آگاہ کیا۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت تنظیم کے 6 ہزار سے زائد ممبران ہیں جبکہ 35 ہزار کے قریب فالوورز ہیں، پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری تنظیم کے قابل ذکر کام ہیں۔

Dr. Abdur Rahman

برلن:APPS EUROPEکے بانی صدرڈاکٹر عبدالرحمان شاہد

ویبینار سے APPS Europ کے صدر و بانی ڈاکٹر عبدالرحمٰن شاہدنے اپنے خطاب میں انسانیت اور مادر وطن پاکستان کی خدمت کے عزم کو دہرایا اور یورپ کی تنظیم کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ APPS Europ یورپ بھر میں پاکستانی ڈاکٹرز فزیشنز سرجنز اور پروفیشنکشز کی سب سے بڑی تنظیم ہو گی اس تنظیم کا مقصد پاکستانی اوریجن کے ڈاکٹرز اور پروفیشنلز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا اور پاکستان کی خدمت کرنا ہے۔ اور بہت جلد یورپ بھر میں تنظیم سازی مکمل کر لی جائے گی جس میں ڈاکٹرز سرجنز فزیشنز سائنس دان اور الائیڈ ایکسپرٹس شامل ہونگے۔

 

کرونا وائرس ،احتیاط اور علاج

ڈاکٹر عبدالرحمٰن شاہد – جرمنی

دشمن سامنے ہو تو اس کا مقابلہ کرنے کی سو تدابیر ہو سکتی ہیں لیکن اگر دشمن چھپا ہوا ہو اور اس کے بارے میں معلومات نہ ہوں تو خوف کی کیفیت طاری رہتی ہے۔

ڈاکٹرز اسپتالوں میں غیر موثر سہولیات کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال نہیں کر پاتے۔کچھ ایسا ہی حال آج کل انسانوں کا ہے۔ دنیا کے ہر کونے میں بچہ بچہ کرونا وائرس کے نام سے مانوس اور خوفزدہ ہے۔ یہ کرونا وائرس ہے کیا اور انسانی صحت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتےہیں اس بات کا تفصیل سے احاطہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔

کورونا ایک خوردبینی وائرس کی فیملی سے تعلق رکھنے والا وائرس ہے جو انسانوں اور جانوروں کو متاثر کرتا ہے۔ کرونا وائرس انسانی جسم میں داخل ہو کر سانس کی وبائی بیماری کا سبب بنتا ہے جسے کو ویڈ 19کا نام دیا گیا ہے۔’’کو و ‘‘سے کورونا وائرس ، ’’ڈی‘‘ سے ڈزیز 2019بنتا ہے۔

کرونا وائرس انسانی جسم پر کس طرح حملہ کرتا ہے

How COVID-19 Attack

کرونا وائرس چین کے شہر ووہان سے پھیلا جہاں پر ایک لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے، یہ وائرس متاثرہ شخص سے ایک صحت مند شخص میں دو میٹر سے 10 میٹر کی دوری سے لگ سکتا ہے۔

یہ وائرس متاثرہ شخص کے چھینکنے سے براہ راست سامنے موجود شخص کے منہ پر منتقل ہو سکتا ہے جہاں سے یہ آنکھ، ناک یا منہ کے ذریعے جسم کے اندر داخل ہوتا ہے۔

How COVID-19 Transfer

چھینک کے ذرات ہوا میں معلق ہوں تو سانس کے ذریعے کسی صحت مند شخص کے اندر پہنچ سکتا ہے ۔
متاثرہ شخص چھینک یا کھانسی کرتے وقت ہاتھ منہ پر رکھے اور وہ ہاتھ کسی سطح پر لگیں تو وہاں سے بھی لوگ متاثر ہو سکتےہیں

COVID-19 Reason

کورونا وائرس سے متاثر مریض کو پہلے روز تیز بخار ہو تا ہے۔ شدید قسم کی تھکن محسوس ہوتی ہے۔ خشک کھانسی آتی ہے

دوسرے روز سے سانس لینے میں دشواری کا سامنا رہتا ہے۔ ساتویں روز تک کچھ مریضوں میں سانس کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے جب کہ باقی مریضوں کو اسپتال میں داخل کرانے کی ضرورت پڑتی ہے۔

آٹھویں روز شدید سانس کی تکلیف کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے جس کے بعد مریض کو آئی سی یو میں داخل کرنا پڑتا ہے۔ بارہویں روز بخار ٹھیک ہو جاتا ہے جب کہ تیرہیوں روز سانس کا مسئلہ بھی ختم ہو جاتا ہے ۔ جن مریضوں میں سانس کا مسئلہ ٹھیک نہیں ہوتا اور بخار رہتا ہے اٹھارویں روز تک ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ زندہ بچ جانے والے مریضوں کی بیماری 22 ویں روز تک مکمل طورپر ٹھیک ہو جاتی ہے ۔

COVID-19 Patients
COVID-19 Symptoms

احتیاطی تدابیر کیا ہیں؟

کرونا وائرس کی ابھی تک کوئی ویکسین تیار نہیں ہو سکی ۔ اس وائرس سے بچنے کا واحد حل احتیاط ہے۔
احتیاطی تدابیر میں عوام کو سب سے پہلے ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے بچنا ہو گا

عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ وائرس ہوا میں 8 گھنٹے تک معلق رہ سکتا ہے۔ اس لیے ماسک پہننا انتہائی ضروری ہے۔

باہر نکلتے وقت عینک کا بھی استعمال کریں تاکہ فضا میں موجود وائرس آنکھوں کے ذریعے جسم میں منتقل نہ ہو سکے،،،
ہاتھوں کو وقفے وقفے سے صابن سے دھوئیں ۔


صابن کونسا استعمال کیا جائے؟

یہاں یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ جب سے کورونا وائرس دنیا بھر میں پھیلا ہے سینی ٹائزرز اور جراثیم کش صابن کی قیمتیں آسمان کو پہنچ چکی ہیں۔ سینی ٹائزر اورمہنگے صابن کی بجائے وائرس کو موثر طریقے سے ختم کرنے کے لیے کپڑے دھونے والا صابن انتہائی موثر ہے۔ صابن میں ایتھانول اورکاسٹک سوڈا جراثیم کش اور چکنائی کو ختم کرنے والے ہیں ۔

کرونا وائرس کا علاج کیا ہے؟

وبا کی یہ شکل زیادہ پرانی نہیں ہے اس لیے ابھی تک اس کی کوئی ویکسین تیار نہیں ہو سکی. جسم کی قوت مدافعت ہی کرونا وائرس سے نجات کا واحد ذریعہ ہے.اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ قوت مدافعت کو کیسے بڑھایا جا سکتا ہے. اس کے لیے ہمیں اپنی روزمرہ کی خوراک اور عادات میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے.

ریسرچ نے ثابت کیا ہے کہ وائرس سے جنگ کے لیے جسم کے دفاعی نظام کو وٹامن ڈی اور رات میں 8 گھنٹے کی نیند کی اشد ضرورت ہوتی ہے. وٹامن ڈی بیماری کی شدت کو کم کرتا ہے اور جلد صحت یابی میں مدد فراہم کر سکتا ہے. یورپ میں وٹامن ڈی کے حصول کے لیے عوام کو فارمیسی پر جا کر پیسے خرچ کرنا پڑتے ہیں تاہم پاکستان میں دھوپ جیسی نعمت سارا سال موجود ہوتی ہے جو وٹامن ڈی کے حصول کا اہم ذریعہ ہے. اس کے علاوہ وٹامن ڈی مچھلی، انڈے،بڑے گوشت کی کلیجی، چیز، دالوں اور مشروم میں بھی پایا جاتا ہے.

رات کے وقت کی نیند ایسے ہی ہے جیسے ہم گاڑی ٹھیک کرنے کے لیے مکینک کی ورکشاپ میں کھڑی کر دیں. ہارورڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق جسم رات کے وقت تمام ریپئرنگ کے کام کرتا ہے جس میں بیماری کی وجہ سے متاثر سیلز اور ٹشوز کی مرمت بھی شامل ہے.آخر میں بطور ڈاکٹر تمام قارئین سے ایک ہی گزارش کروں گا کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کا واحد حل سماجی فاصلہ اور ہاتھ ملانے سے گریز ہے،، وقفے وقفے سے صابن سے چاہے وہ کپڑے دھونے والا ہی کیوں نا ہو ہاتھ کم از کم بیس سیکنڈ تک دھوئیں تاکہ آپ بھی محفوظ رہیں اور اپنے پیاروں کو بھی محفوظ رکھیں

جرمنی نے کورونا وائرس پر کیسے قابو پایا؟

ڈاکٹر عبدالرحمٰن شاہد – جرمنی

کورونا وائرس ہے کیا؟

کورونا وائرس خوردبینی وائرس ہے جو انسانوں اور جانوروں دونوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ وائرس سانس کے مسائل پیدا کرتا ہے ۔ کورونا وائرس انسانوں کو کس طرح متاثر کرتا ہے اس کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔

یہ وائرس سب سے پہلے چین کے شہر ووہان میں سامنے آیا جہاں اس سے تقریباً ایک لاکھ کے قریب افراد متاثر ہوئے۔

کورونا وائرس 2 سے 10 میٹر فاصلے سے ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو نے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ انسانی جسم کے اندر آنکھ، ناک اور منہ کے ذریعے داخل ہوتا ہے۔

کسی بھی متاثرہ شخص کی چھینک یا کھانسی سے وائرس فضا میں منتقل ہوتا ہے جہاں سے یہ سانس یا دوسرے شخص کے ہاتھ پر منتقل ہوتا ہے ۔

اگر متاثرہ شخص اپنے ہاتھ کو آنکھ، ناک یا منہ کو لگاتا ہے تو وائرس انسان کے اندر پہنچ جاتا ہے ۔

جرمنی کے اقدامات۔

کورونا وائرس سے متاثرہ دیگر یورپی ممالک کی نسبت جرمنی میں سب سے کم ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ لیکن ابھی خطرہ ٹلا نہیں۔ کورونا وائرس کے خلاف جرمنی کے کامیاب اقدامات کو دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے۔ کورونا وائرس پھیلنے کے بعد حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کے دوران عوام نے مثبت رد عمل دکھایا اور حکومتی ہدایات پر سختی سے عمل درآمد کیا۔ سوشل ڈسٹنس کو اپنایا اور ماسک کے ساتھ ساتھ عینک کے استعمال کو بھی یقینی بنایا گیا۔ جرمن عوام کی ذمہ داری کا یہ عالم ہے کہ عوامی جگہوں اور کام کی جگہ پر اگر کوئی شخص ماسک کے بغیر موجود ہوتا تو دیگر افراد اسے ماسک پہننے پر مجبور کرتے ۔

جرمنی میں کورونا وائرس کے دوران اسپتالوں نے مریضوں کے بہتر علاج سے یہ ثابت کر دیا کہ ٹیکنالوجی اور ڈاکٹرز کی مہارت کسی بھی مشکل گھڑی میں مثبت نتائج لا سکتی ہے۔ جس وقت یہ آرٹیکل لکھا جا رہا ہے اس وقت تک ایک لاکھ 72 ہزار کورونا کے مریض سامنے آئے جن میں سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد صرف 7ہزار676 ہے۔ہلاکتوں کی یہ تعداد یورپ بھر میں کم ترین سطح پر ہے۔

ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر تعداد ان افراد کی ہے جو اسپین اور اٹلی کے اسپتالوں میں جگہ کم پڑنے کی وجہ سے ہنگامی طورپر جرمنی منتقل کیے گئے ۔ وباء کے پھیلاؤ کے دنوں میں جرمنی میں حکومت کی جانب سے ہنگامی طورپر 10 لاکھ مریضوں کے علاج کیلئے اسپتال تیار تھے۔ تاہم 30 فیصد اسپتال کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے استعمال ہوئے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بہت سے اسپتالوں میں کورونا وارڈز خالی پڑے ہیں۔

جرمن حکومت کی جانب سے اب لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی ہے ۔ معیشت کو سہارا دینے کے لیے کاروبار کھل رہے ہیں ۔ اسکول بھی حفاظتی اقدامات کے تحت کھلنا شروع ہو گئے ہیں۔

کورونا وائرس کے مزید پھیلاؤ کے روک تھام کے لیے جرمن حکومت کی جانب سے ملک بھر میں اینٹی باڈیز ٹیسٹ لینا شروع کر دیئے گئے ہیں تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ کورونا وائرس کے خلاف کتنی آبادی میں مدافعت پیدا ہو چکی ہے۔

لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد بھی شہریوں کو باہر نکلتے وقت سماجی فاصلے کو مد نظر رکھنا ہو گا ، دستانے اور ماسک پہننا ہوں گے بصورت دیگر جرمانے یا سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جرمنی کے عوام نے مشکل وقت میں انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دیا اور اپنے ہمسائیہ ممالک اسپین اور اٹلی کی عوام کی نسبت زیادہ پختگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

بطور پاکستانی اوورسیز ڈاکٹر جرمنی میں کام کرتے ہوئے اپنے پاکستانی بھائیوں کو میرا پیغام ہے کہ صرف تین کام آپ کو کورونا وائرس سے بچا سکتے ہیں ۔ نمبر ایک گھر سے نکلتے وقت اپنا منہ ڈھانپیں، چاہے ماسک سے،، یا پٹکے سے ۔ بازار میں دوسرے افراد سے کم از کم ایک میٹر کا فاصلہ رکھیں ، ہاتھوں کو دھوئے بغیر آنکھ، ناک یا منہ کو نہ لگائیں۔ گھر واپسی پر ہاتھوں کو صابن سے اچھی طرح دھولیں تاکہ آپ محفوظ رہیں اور آپ کی وجہ سے آپ کے پیارے بھی محفوظ رہیں۔

 

جرمنی پاکستان میں ایمر جنسی میڈیسن کے شعبے میں تعاون کیلئے تیار ،ڈاکٹر عبدالرحمان شاہد

ڈاکٹر عبدالرحمٰن شاہد – جرمنی

پاکستانی ڈاکٹرز جرمنی میں تربیت کے مواقع سے مستفید ہو سکیں گے،جابز بھی ملیں گی
لاہور( یورو نیوز اردو)جرمنی میں ایمرجنسی میڈیسن کے شعبے میں کام کرنے والے ڈاکٹر عبدالرحمان شاہد ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں جہاں وہ جرمنی کے جدید ترین اسپتالوں کی جانب سے پاکستان کے پیرا میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹرز کی تربیت کے شعبے میں تعاون کی پیش کش بارے اعلیٰ حکومتی حکام اور دیگر افراد سے ملاقاتیں کریں گے۔

انہوں نے لاہور میں ڈاکٹرز کے ساتھ ظہرانے پر ملاقات کی اور مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔ ظہرانے میں ڈاکٹر عباس احمد، ڈاکٹر راشد ارشد،ڈاکٹر جبران نواز، ڈاکٹر انس اعجاز، ڈاکٹر کامران الیاس اور کاروباری شخصیات چوہدری عفان شاہد اور چودھری فرقان راشد موجود تھے۔

اس موقع پر ڈاکٹر عبدا لرحمان شاہد نے کہا کہ پاکستان میں ایمرجنسی میڈیسن کے شعبے میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سرکاری سطح پر ایمرجنسی کے شعبے کو جرمنی اور بین الاقوامی معیار کے مطابق اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ جرمنی کے حکام اور بہترین اسپتال پاکستانی ڈاکٹرز کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے معترف ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان سے پیرا میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹرز کی بین الاقوامی معیار کے مطابق ایمرجنسی میڈیسن کے شعبے میں تربیت کی جائے۔
ملاقات میں موجود پاکستانی ڈاکٹرز نے ڈاکٹر عبدالرحمان شاہد سے اتفاق کیا اور کہا کہ پاکستان میں عوامی رویے اور ڈاکٹرز کے رویے دونوں میں ہی بے پناہ خامیاں پائی جاتی ہیں۔ عوام تحمل کا مظاہرہ کریں اور ڈاکٹرز پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کا تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی ایمرجنسی میڈیسن کے شعبے میں جرمنی کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

ملاقات میں کرونا وائرس کی تباہ کاریوں اور پاکستانی ڈاکٹرز کی تیاریوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا،،

پاکستان اور جرمنی میں ہیلتھ کے شعبے میں معاونت پر پیشرفت

اے ایف چودھری

پاکستان میں ایمرجنسی میڈیکل کے شعبے میں اصلاحات کیلئے سر گرم جرمن ایمرجنسی میڈیکل ڈاکٹر عبدالرحمان شاہد کی کوششیں رنگ لانے لگیں۔جرمنی کے شعبہ ہیلتھ سے وابستہ ادارے پاکستان میں اسپتالوں میں ایمرجنسی میڈیکل کے شعبے میں تعاون کیلئے تیار ہو گئے۔

ڈاکٹر عبدا لرحمان شاہد نے یورو نیوز اردو کو بتایا کہ پاکستان میں ایمرجنسی میڈیکل شعبے میں بے پناہ اصلاحات کی ضرورت ہے۔ جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملک کی طرح پاکستان میں بھی ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو ایمرجنسی کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے جدید خطوط پر تربیت کی ضرورت ہے۔ جس سے کئی قیمتی جانوں کو بچایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال دورہ پاکستان کے دوران پاکستان میڈیکل کونسل ،نیم سرکاری اسپتالوں اور فیڈرل ہیلتھ منسٹری کے عہدیداروں سے ملاقات میں اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ جرمنی کے شعبہ صحت کی ترقی سے فائدہ اٹھایا جائے ۔ ڈاکٹر عبدالرحمان شاہد کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے ہائیڈل برگ کی سٹی کونسل کے رکن اور سرگرم پاکستانی نژاد سیاسی رہنما وسیم بٹ کے اشتراک سے جرمنی کے اسٹیٹ آف دی آرٹ میڈیکل سہولیات سے پاکستانی ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو فائدہ پہنچانے کیلئے کامیابی حاصل کر لی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈیوس میں موسمیاتی تبدیلیوں کے صحت پر اثرات سے متعلق ورکشاپس میں شرکت کی دعوت کے باوجود وہ مصروفیات کے باعث نہ جا سکے تاہم رکن سٹی کونسل وسیم بٹ نے وزیراعظم عمران خان اورمشیر وزیراعظم زلفی بخاری سے ڈیوس میں ملاقات میں پیشرفت سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں پروجیکٹ پروپوزل پیش کیا۔
ڈاکٹر عبدالرحمان شاہد نے بتایا کہ وہ جلد ہی پاکستان کا دورہ کریں گے اور سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے واضح لائحہ عمل پیش کریں گے۔

دل کےاسپتال پر سنگدل وکلا کاحملہ

ڈاکٹر عبدالرحمٰن شاہد – جرمنی

پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی جسے عرف عام میں دل کا اسپتال بھی کہتے ہیں چند روز قبل وکلا کی دہشت گردی کا شکار بنا۔وکلا کا ہنگامہ محمد بوٹا سمیت 3 مریضوں کی جان لے گیا۔ وہاں طبی امداد نہ ملنے پر مریض تڑپتے رہے،لواحقین دہائیاں دیتے رہے،ہنگامہ آرائی سے اسپتال انتظامیہ بے بس ہو گئی۔عملہ اپنی جان بجاتا رہا اور مریضوں کی بھی فکر کرتا رہا۔افرا تفری بڑھی تو مریض بے حال ہو گئے۔سنگدل وکلا نے ایک خاتون مریضہ کا آکسیجن ماسک بھی اتار دیا۔

بطور اوورسیز پاکستانی اس سارے ڈرامے کو دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا رہا۔ اسپتال پر حملہ تو جنگ کے دنوں میں دشمن بھی نہیں کرتا۔ یہاں پر ڈاکٹرز کے ساتھ وکلا کی کیا دشمنی تھی۔ میں عالمی سطح پر ڈاکٹر کے مقدس پیشے کیلئے اسٹینڈرز سے بھی واقف ہوں اسی وجہ سے پاکستان میں ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتالوں کی ماضی میں بھی مذمت کرتا رہا ہوں اور اب بھی کرتا ہوں۔ ہم ایک ایسا معاشرہ ہیں جہاں سب ہاتھ دھو کر ڈاکٹرز کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب یہ وکیل 2 بجے کورٹ سے گھر چلے جاتے ہیں تو ڈاکٹرز اسپتال میں ہوتے ہیں۔ ڈاکٹرز اپنی عید،شب برات اور ہر قومی تہوار اسپتال میں مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے گزارتے ہیں ،،

جو قومیں ڈاکٹرز کو عزت نہیں دیتیں وہ صحت مند معاشرہ قائم نہیں کر سکتیں۔ جرمنی میں بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ خدا کے بعد ڈاکٹر ہی ہمارے خدا ہیں۔

ایک بات تو پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ڈاکٹر بننے کیلئے والدین کا چالیس سے پچاس لاکھ روپیہ ،، دن رات محنت اور سالہا سال کی کتب بینی لازمی ہے۔ لیکن ایک وکیل بننے کے لیے سادہ بی اے میں پچاس فیصد سے کم نمبرز بھی چل جاتے ہیں۔

پاکستان میں ایمرجنسی کے شعبے میں اصلاحات کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے میں ہر سطح پر آواز بلند کر رہا ہوں ۔ اسپتالوں میں ڈاکٹر ز کی عالمی معیار کی تربیت کا تو بندو بست کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے رویے کو آئے روز کی دھینگا مشتی اور لڑائی جھگڑے متاثر کرتے ہیں۔

پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملے کے بعد ایسا محسوس نہیں ہو رہا کہ ریاست پاکستان اپنی رٹ کو بحال کر سکے گی کیوں کہ کیس کو خراب کرنے کے لیے بار بھر پور طریقے سے ایکٹو ہے اور انصاف کا ترازو بھی کالے کوٹ کے وزن سے دبتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔

اگر آج پاکستانی قوم ڈاکٹرز کے ساتھ نہ کھڑی ہوئی تو پھر پاکستان میں ڈاکٹرز کی قلت پیدا ہو جائے گی، یورپ، امریکہ ،برطانیہ اور دیگر ممالک پہلے ہی پاکستانی کوالیفائڈ ڈاکٹرز کی طرف دیکھ رہے ہیں،،

آج پاکستانی وزرا،،ججز،سیاستدان،پولیس،عوام اور حتی کہ وکیل بھی اس بات پر متفق ہیں کہ ڈاکٹر نہ ہوں تو کیا ہومیوپیتھک ،،حکیم یا سڑک پر بیٹھے دندان سازعوام کا علاج کریں گے ۔ پھر وکلا کے ہاتھوں سے نہ سہی نیم حکیموں کے ہاتھوں بوٹے مرتے رہیں گے۔

ڈاکٹرز کیوں پٹتے ہیں؟

ڈاکٹر عبدالرحمٰن شاہد – جرمنی

پاکستان کے اسپتالوں میں آئے روز ڈاکٹرز کی تذلیل ہوتے دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ کسی بھی ایمرجنسی میں مریض کا بروقت اسپتال پہنچنا اور جلد از جلد علاج کا شروع ہونا اس کی زندگی بچانے کا تعین کرتا ہے۔ اگر ایسے میں مریض اللہ کو پیارا ہو جائے تو مریض کے لواحقین جذبات میں بہہ جاتے ہیں ۔اور اس کے بعد ٹی وی اسکرینوں پر اسپتال میں دل دہلا دینے والے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بطور ڈاکٹر دیار غیر میں بیٹھ کر اس طرح کے حالات دیکھ کر اپنے ملک میں طبی سہولیات، حادثے کی صورت میں قریب موجود افراد کا رویہ اور ابتدائی طبی امداد دینے کے معاملات پر دل افسردہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹرز اسپتالوں میں غیر موثر سہولیات کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال نہیں کر پاتے۔ کبھی ادویات کی کمی تو کبھی مریضوں کازیادہ ہونا آڑے آجاتا ہے. تب ہی ان پڑھ لوگ وحشیانہ انداز میں انتہائی تعلیم یافتہ ڈاکٹرز کو پیٹتے ہوئے نظر آتے ہیں.

ایمرجنسی کی صورت حال کو کس طرح مینج کیا جائے یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ایمرجنسی میڈیسن جرمنی سمیت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں مشکل ترین حالات میں انسانی جان بچانے کا موثر طریقہ کار ہے۔ ڈاکٹرز کو مختلف ایمرجنسی کی صورتحال میں فوری فیصلہ سازی اور بہتر علاج فراہم کرنے کے لیے پہلے سے مختلف سطح پر تیاری کی جاتی ہے۔ ایمرجنسی کی ادویات بھی مختلف ہوتی ہیں۔ خون کے نمونے اور دیگر ٹیسٹ کے رزلٹس بھی فوری موصول ہوتے ہیں اس کے علاوہ بھی بہت سے عوامل ہیں جو مریض کی جان بچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

جرمنی میں بطور ایمرجنسی سرجن ڈاکٹر خدمات سر انجام دیتے ہوئے کئی سال بیت گئے۔ پاکستان کے اسپتالوں میں ایمرجنسی کے شعبے کو دیکھ کر دل سے دعا نکلتی ہے کہ کاش پاکستان میں بھی جرمنی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک جیسی سہولیات فراہم کی جا سکیں تاکہ ایمرجنسی کی صورت میں زیادہ سے زیادہ انسانی جانی بچائی جا سکیں۔ ایمرجنسی میڈیسن حالیہ چند سالوں میں یڈیکل کی ایک اہم شاخ کے طورپر سامنے آئی ہے۔ اس شعبے میں ترقی سے خاطر خواہ نتائج سامنے آرہے ہیں۔

میری پاکستان کے وزیراعظم عمران خان ، وفاقی وزیر صحت اور صوبائی وزرا سے گزارش ہے کہ بیرون ملک مقیم درجنوں ایکسپرٹس جو اپنے پیارے وطن کے لیے خدمات سر انجام دینا چاہتےہیں ان کی صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ اٹھا جائے اور پاکستان میں روایتی ایمرجنسی شعبے کی بجائے جدید ایمرجنسی میڈیسن کے شعبے کو فروغ دیا جائے۔ اس کام کے لیے میں اور میرے جیسے درجنوں ڈاکٹرز جرمنی، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک سے تعاون کے لیے ہر دم تیار ہیں۔ شاید اسی طرح سے پاکستان کے اسپتالوں میں ڈاکٹرز آئے روز پٹائی سے بچ جائیں۔

ڈینگی سے مقابلہ مشکل کیوں۔؟

ڈاکٹر عبدالرحمٰن شاہد – جرمنی

ڈینگی کے باعث پاکستان میں خوف کی فضا قائم ہے۔ اس مرتبہ ڈینگی کا وار پنجاب کے شہر راولپنڈی اور پوٹھوہار ریجن میں زیادہ ہوا ہے۔ خیبر پختونخوا کا دارالحکومت پشاور بھی اس سے محفوظ نہیں رہا۔ کراچی سے لے کر پشاور تک متعدد شہروں میں ہزاروں افراد اس کا شکار ہو چکے ہیں۔محتاط اندازے کے مطابق اس مرض سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 11 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ جب کہ ملک میں ڈینگی سے اب تک کم از کم 25 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔


<pclass=”urdu-font”>ڈینگی کا نام آتے ہی ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مرض کیسے ہوتا ہے؟ڈینگی کا مرض خاص قسم کے دھبے دار جلد والے مادہ مچھر ایڈیز ایجپٹی کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ نر سے ملاپ کے بعد مادہ کو انڈے دینے کے لیے پروٹین کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ یہ پروٹین حاصل کرنے کے لیے انسانی خون چوستی ہے جس سے ڈینگی کا انفیکشن پھیلتا ہے۔یہ مچھر پاکستان میں مون سون کی بارشوں کے بعد ستمبر سے لے کر دسمبر تک موجود رہتا ہے۔ یہ مچھر شدید سردی اور شدید گرمی میں مر جاتا ہے۔

<pclass=”urdu-font”>اس مچھر کے انڈے اور لاروے کی پرورش صاف پانی میں ہوتی ہے ،بارش کے بعد گھروں کے آس پاس یا لان، صحن وغیرہ میں جمع ہونے والے پانی ،گملوں،روم کولر اور اے سی کاگرتا پانی مچھر کی افزائش کیلئے مدد فراہم کرتا ہے۔

ڈینگی کے مرض کی پہلی اسٹیج میں تیز بخار کے ساتھ جسم خصوصاً کمر اور ٹانگوں میں درد اور شدید سر درد شامل ہیں اس کے علاوہ مریض کو متلی اور قے کی شکایت ہو سکتی ہے۔جلد پرسرخ دھبے بھی نمودار ہو جاتے ہیں۔ بخار کے دوران ڈینگی کے مریض پر غنودگی طاری ہو سکتی ہے اور ساتھ ہی سانس لینے میں دشواری ہو سکتی ہے۔

ڈینگی کے مرض کی دوسری اسٹیج میں جسم کے اندر خون کی نالیاں متاثر ہو تی ہیں ۔ پیٹ کے اندر شدید درد محسوس ہوتا ہے ۔تیسری اسٹیج میں خون پیٹ کے اندر جمع ہونا شرو ع ہو جاتا ہے ،، جسم کو شدید جھٹکے لگنے شروع ہوتے ہیں اور مریض کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ ڈینگی وائرس کے جسم میں داخل ہونے کے بعد سو میں سے ایک فیصد مریض پہلی اسٹیج سے دوسری اسٹیج میں جا سکتے ہیں۔

ڈینگی وائرس کی چار ٹائپس ہیں کسی بھی ایک ٹائپ کے حملے کے بعد ریکور ہونے پر دوبارہ اس ٹائپ کا حملہ انسان پر زندگی بھر نہیں ہوتا لیکن دیگر ٹائپس کا حملہ ممکن ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایک انسان کو زندگی میں چار مرتبہ ڈینگی بخار ہو سکتا ہے۔

ڈینگی وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسین 2017 میں مارکیٹ میں آئی تھی، لیکن اسے صرف 9 سے 16 سال کے بچوں کو ہی لگاٰیا جاتا ہے۔ ڈینگی وائرس کی علامات ظاہر ہونے پر فوری علاج شروع ہو جائے تو مریض پہلی اسٹیج سے دوسری اسٹیج میں جانے سے بچ جاتا ہے۔ ڈینگی وائرس کے حملے میں علامات کا ہی علاج کیا جاتا ہے۔ اس کا واحد علاج احتیاط ہے۔ ایک مریض سے صحت مند افراد میں وائرس کی منتقلی کو روکنے کیلئے مریض کو مچھر دانی میں رکھا جا تا ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ایک مرتبہ یہ مرض ہوجائے تو اس وائرس کو جسم سے ختم ہونے میں دو سے تین ہفتوں تک کا وقت لگ سکتا ہے۔

ڈینگی بخار کی تصدیق این ایس ون یا پی سی آر نامی خون کے تجزیوں سے ہوتی ہے۔ڈینگی کے مریض کو زیادہ سے زیادہ آرام کرنا چاہیے۔ مریض کو پانی اور پھلوں کے جوس، او آر ایس وغیرہ پلانا چاہیے۔ تاہم کاربونیٹڈ ڈرنکس کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے۔مریض خون پتلی کرنے والی ادویات ایسپرن، آئبوپروفن اور اینسیڈ کے استعمال سے اجتناب کریں۔

ڈینگی کے مرض سے بچاؤ کے لیے پورے آستین والی قمیص یا شرٹ اور مکمل ٹروزر یا شلوار پہننی چاہیے، پرانے ٹائرز،گملوں،روم کولر میں پانی نہ کھڑے ہونے دیں۔ بارش کے بعد پانی کو صحن اور لان سے جلد از جلد صاف کریں۔ اے سی کے گرتے پانی کی نقاسی کا بھی اہتمام کیا جائے۔

جرمنی میں میڈیکل کے شعبے میں کام کرتے ہوئے پاکستان میں اس شعبے میں اصلاحات کا خواب ہے جو انشاء اللہ پورا ہوگا۔ جرمنی میں مریض کے اسپتال پہنچنے پر اسے پرچی کیلئے لائن میں لگنے کی بجائے پہلے ڈاکٹرز چیک کرتے ہیں ۔ پاکستان میں اگر مریض کیلئے پرچی کے کاؤنٹر پر کم از کم ایک ایسا تربیت یافتہ ذمہ دار تعینات کیا جائے جو مریض کی حالت کے مطابق اسے ٹریٹ کرنے کے لیے صحیح ڈاکٹر کے پاس بھیج سکے۔ یورپ میں ڈاکٹرز اپنے شعبے میں ایکسپرٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقی طورپر بھی بہت زیادہ تربیت یافتہ ہوتے ہیں ۔ بد قسمتی سے پاکستان میں نوجوان ڈاکٹروں کو جہاں زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہے وہ اپنا اور قوم کا قیمتی وقت ہڑتالوں پر برباد کرتے رہتے ہیں۔ جب کہ سینئر ڈاکرز بھی ذمہ داری لینے کی بجائے صرف اپنے آفس تک محدود نظر آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایمرجنسی کی حالت میں شرح اموات پاکستان میں زیادہ ہے۔ ڈینگی کے خطرے کے پیش نظر حکومت کو چاہیے کہ وہ پہلی اور دوسری اسٹیج پر مریضوں کو فوری اور بہتر ٹریٹ منٹ فراہم کرنے کے لیے سینئر ڈاکٹرز کو تعینات کرے تاکہ موت میں جاتے مریضوں کو بچایا جا سکے۔ اس کے علاوہ ڈینگی وائرس کے علاج کے لیے حکومتی سطح پر بھی عوام کیلئے آگاہی مہم چلانے کی اشد ضرورت ہے۔